مہنگائی کی اصل وجہ اور اس کا حل
اگر ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کی بات کریں تو اسلام کا معاشی نظام اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بالکل ایک منفرد نظام کے طور پر سامنے آتا ہے۔
مہنگائی کی طوفانی لہر جو پچھلے چند سالوں سے شدت کے ساتھ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئےہوئے ہے، اب برداشت کی تمام حدود پار کر رہی ہے۔تیل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں، انڈے، گوشت، بجلی و گیس کے بل ، سکول فیس آبادی کے بڑے طبقے کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کام کیسے کرتا ہے تو ہمیں مہنگائی اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان ایک گہرا اور لازمی رشتہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ماضی میں ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوا کرتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔اس کے علاوہ جنگ عظیم اول اور دوئم بھی کرنسی کی طلب میں بے پناہ اضافے کا سبب بنیں۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے جس وجہ سے اشیاء کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہیں۔یوں اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس سرمایہ دارانہ نظام کاطرہ ٔامتیاز ہے، لہٰذا اس نظام میں ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی کاغذی کرنسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا افراطِ زر ، مہنگائی پیدا کرنے والی چار بنیادی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
مہنگائی کی دوسری وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نا اہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیاء کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیاء درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ و تیل، LNG ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔ یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے ۔
مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی (انرجی) کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔
اور مہنگائی میں اضافے کی چوتھی بڑی اور بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بل واسطہ(ڈائریکٹ) اور بلا واسطہ(ان ڈائریکٹ) ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثرٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیاء اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیاء اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں۔
اگر ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کی بات کریں تو اسلام کا معاشی نظام اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بالکل ایک منفرد نظام کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ اسلام نے سونے اور چاندی کو ریاست کی کرنسی کی بنیاد ٹھہرایا ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف سونے اور چاندی کو ہی کرنسی کی بنیاد بنانے کی اجازت دی ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سونے کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب 4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔سونا اور چاندی ،کرنسی کو ایک حقیقی قدر فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کرنسی کی قدر اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہتا ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست کرنسی کو سونے اور چاندی کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے ، اور منظم نظام کے ذریعے سونے اور چاندی کے ذخائر جمع کرتی ہے، سونے اور چاندی کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے جہاں ممکن ہو، بارٹر ( یعنی جنس کے بدلے جنس کی) تجارت بھی اختیار کرتی ہے اور بین الاقوامی تجارت سونے اور چاندی میں کرنے پر اصرار کرتی ہے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں قائم ڈالر کی موجودہ جابرانہ بالادستی کا خاتمہ ہوتا ہے۔لہٰذا ایک اسلامی ریاست میں کرنسی کے سونے اور چاندی پر مبنی ہونے کے باعث، افراط زر کا مسٔلہ جڑ سے ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اب حکومت مالیاتی(Fiscal)خسارہ پورا کرنے کیلئے نوٹ نہیں چھاپ سکتی نہ ہی شرح سود کی کمی و بیشی سے معاشرے میں کرنسی کی مقدار کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ کا تعلق ہے تو اسلامی نظام میں اسلامی ریاست کا سربراہ یعنی خلیفہ مسئول ہوتا ہے اور وہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے بارے میں آخرت میں اس کا سخت محاسبہ ہو گا۔ پس خلیفہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ایکشن لے کر تعزیری سزائیں نافذ کرتا ہے۔ مناپلی اور کارٹیل بنانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ریاستی وسائل اور عقوبات کے نظام سے اس کا قلع قمع کرتا ہے، اور ملکی تاجروں کیلئے درآمدات پر تمام ٹیکسزکا خاتمہ کرتا ہے تاکہ مارکیٹ سپلائی پر چند سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے۔ اور یہ سب خلیفہ کی صوبدید نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر مبنی ہوتا ہے، جس کا نفاذ خلیفہ پر لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ مَنْ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامًا ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْجُذَامِ وَالْإِفْلَاسِ "جو کوئی اشیائے خوراک ذخیرہ کر کے مسلمانوں کو اس سے محروم کرے گا تو اللہ اسے جذام (leprosy)اور افلاس کا شکار کر دے گا"(احمد اور ابن ماجہ بروایت عمرؓ، حدیث صحیح )۔
پھر جہاں تک تیسری بنیادی وجہ کا تعلق ہے تو اسلام توانائی کے وسائل کی نجی ملکیت کی ممانعت کرتا ہے اور انہیں عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جن کی نگہبانی ریاست کرتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو براہ راست عوام تک پہنچاتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں خلیفہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تیل اور گیس کے ذخائر یا بجلی بنانے کے کارخانوں کی نج کاری کر سکے، یوں اسلام انرجی کی قیمتوں کو متوازن اور عوام کی پہنچ میں رکھتا ہے۔
اور جہاں تک چوتھی بڑی وجہ کا تعلق ہے تو اسلام میں جنرل سیلز ٹیکس اور اس قسم کے دیگر بلا واسطہ ٹیکس عائد کرنا، جوغریبوں اور امیروں پر بلا امتیاز لاگو ہوتے ہوں، حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : لا یدخل الجنۃ صاحب المکس "جو ٹیکس لے وہ جنت میں داخل نہ ہو گا" (احمد، ابو داؤد ، حاکم)۔ یوں اسلام میں اشیاء اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل پر قائم رہتی ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے اس کے خمیر میں یوں گندھی ہوئی ہے اور اس کے انگ انگ میں یوں پھیلی ہوئی ہے کہ اس کو اس نظام سے الگ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ یقیناً یہ ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کا وقت ہے جو اسلام کے نفاذ کے ذریعےہماری معاشی خوشحالی کو یقینی بنائے جیسا کہ اس نے صدیوں تک اسے یقینی بنایا تھا۔موجودہ حکومت بھی اپنے سے پچھلی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کی مانند ناکام ہو چکی ہے کیونکہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی نظام مسلم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر مسلمانوں کو دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو انہیں چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائیں جو اسلام کو اس کے معاشی نظام سمیت ہماگیر طور پر نافذ کرے۔