تجسس انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ نامعلوم کی تلاش اسے سمندر کی گہرائیوں اور خلا کی پنہائیوں تک لے جاتی ہے ۔ وہ تہہ در تہہ راز افشانیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن ہر انکشاف کے ساتھ ایک نئی پیاس بھی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ انسان کبھی سیراب نہیں ہوگا ۔ یہ ناقابل سیراب پیاس کئی رنگوں اور کئی شکلوں میں اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ علم کی تشنگی، سائنس کی دریافت ، کائنات کی کھوج، دولت کی ہوس اور جنس کی بھوک یہ سب اسی تجسس کی ہی مختلف اشکال ہیں جو وہ اپنے خون میں لے کر پیدا ہوا ہے۔
انسان کی جبلت بھی بڑی پر اسرار حقیقت ہے اس کے سارے عناصر خود کار ترکیب اور ترتیب کے ساتھ متعامل رہتے ہیں ۔ کبھی بھی کچھ بھی عدم توازن کا اظہار ہو سکتا ہے ۔ اور بظاہر احسن تقویم کا متوازن مرکب کسی بھی غیر انسانی بے ضابطگی کا مرتکب ہو سکتا ہے ۔
معاشرے میں جنسی تلذذ کی بے ضابطگی اس بے تہذیب تجسس کا شاخسانہ ہے جسے دنیا کا کوئی قانون اب لگام دے کر سدھانے کی پوزیشن میں نہیں رہا ہے ۔ آزادی ، ترقی اور روشن خیالی کے علمبرداروں نے ایک صدی اسی مشن میں کھپا دی کہ مرد کے لیے عورت کا تجسس ختم کیا جائے تاکہ وہ اسے نخچیرِہوس نہ بنا سکے ۔ تاکہ اس کا دل اس سے بھر جائے اور وہ اپنی توانائی جنس کی بجائے کسی دیگر تعمیری سرگرمی میں وقف کرے۔ معاشرے کی ترقی کیلیے اسے یک نقاطی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا گیا اور اس پر عمل در آمد کی یہ صورت نکلی کہ عورت کو برقعے سے نکال کر ٹائٹس اور سکرٹس میں ٹھونس دیا گیا اور گھروں سے آزاد کرکے بازاروں ، دفتروں اور ساحلوں کی زینت بنا دیا گیا۔ مرد کے نزدیک عورت کی کشش کم ہوگئی ۔ مرد کی ہوسناک نظروں میں عورت بطور شکار نہ رہی اور اس طرح کسی ساحل پر چار گرہ کپڑے میں ملبوس رہ کر بھی وہ محفوظ پڑی رہی ۔ یہاں تک روشن خیالوں کا خیال روشن رہا لیکن ان کی کوتاہ نظری اس روشنی کے اس پار کا منظر نہ دیکھ سکی ۔
اس پار جہاں تاریکی ہے ۔ ایسی لا محدود تاریکی کہ جس میں جانور بھی جانے سے گھبراتے ہیں وہاں صرف "انسان" ہوتے ہیں اور جانوروں کا کردار بھی وہ خود ہی ادا کرتے ہیں ۔ اور انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے وہ جانوروں کا کردار بھی اصل سے زیادہ بہتر انداز میں ادا کر سکتا ہے ۔ وہ باگھ بگھیلے بھیڑئیے اور خونخوار کتوں کا کردار بھی اصل سے کہیں زیادہ اچھا کر تا ہے۔
اس کی جنس ِ مخالف کی فطری کشش کو اس قدر بھنبھوڑ دیا گیا کہ اس کے وحشی تجسس نے تلذذ کی نئی ضرورتوں کا تقاضا کر دیا ۔اور اسی تقاضے کی تسکین کیلیے پھر وہ روشن خیالی کے ماورا ڈارک ویب میں جا پہنچا جہاں تجسس کا ایک نیا جہان آباد ہے جہاں فطرت کے مخالف ایک پورا جال بنا ہوا ہے جس کی ایک ایک گھری میں ایک ایک دجالی جنگل موجود ہے۔ جس میں روشن خیالی کی ڈسی ہوئی تاریک بدروحیں زومبیز بن گئی ہیں ۔ جس میں صرف جنس کے متعلق ایک ہزار جہتیں ہیں ۔ گے ، لیزبین ، ہومو سیکسوئل ، بائی سیکسوئل, ان سیسٹ ، پھر سیکس روبوٹس ، پورنو گرافی، پیڈو فیلیا ، زو فیلیا ، وائلنٹ سیکس، لائیو وائیلنس، بروٹل مرڈر اور وہ سب کچھ جو شاید مجھ سے لکھا نہ جائے اور اگر میں لکھ ہی بیٹھوں تو آپ سے پڑھا نہ جائے ۔
صرف اتنا بتانا نقارخانے میں طوطی کی آخر آواز کی مقدار فرض ہے کہ یہ تاریک جنگل روشن خیالی کی وجہ سے ختم ہو چکی فطری کشش کا ردعمل ہے ۔ جو یقیناََ فتنہ دجال کی ایک انتہائی ادنیٰ سی جھلک ہے ۔
جبلت کا بگڑا ہوا یہ توازن دجال اور اس کے پیروکاروں کا وہ بے آواز فتنہ ہے جس کے متعلق پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ خبردار رہنے کا حکم دیا ۔
جس کا منہ زور طوفان تجسس کی اندھی ہواوں پر سوار پوری دنیا کو لپیٹ لپاٹ کر اسی تاریکی میں لے جانے پر تلا ہوا ہے جس میں جانور بھی جانے سے گھبراتے ہیں اور جس میں انسان خود ہی جانوروں کا بھیانک کردار ادا کرتے ہیں۔ کتے ، بھیڑئیے ، لگڑ بگڑ ، چیتے اور اژدھے بل ھم اضل ۔