اگر آپ کو پاکستان سے باہر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلا فرق آپ نے محسوس کیا ہو گا وہ ہے ٹریفک کا نظم و ضبط. یہاں تک کہ جہاز سے اترنے کے بعد جس بس میں بیٹھا کر مسافروں کو ایئرپورٹ بلڈنگ تک لایا جاتا ہے اس کا ڈرائیور بھی سیٹ بیلٹ باندھ کر بس چلاتا ہے.
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ٹریفک پولیس اہلکار روڈ پر نظر آئے. جب کبھی نظر آئے گا بھی تو کسی ایمرجنسی کی صورت میں ٹریفک کی فراوانی یقینی بنا رہا ہو گا. اس کے بر عکس پاکستان میں ہر چوک پر دو دو تین تین اہلکار کھڑے نظر آنے کے باوجود بھی ہر طرف بے ہنگم ٹریفک ہوتی ہے. سخت گرمی میں پولیس والے اگر کچھ کر رہے ہوتے ہیں تو وہ ہےکسی چنگ چی والے یا اس موٹر سائیکل والے کا چلان جو شکل سے انتہائی غریب اور سیدھا سادہ سا لگے. روکنے کی وجہ بھی کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ موٹر سائیکل کے کاغذات کا پاس نا ہونا.
پچھلے تین ماہ سے پاکستان ہوں اور میری حسرت رہی ہے کہ کسی کار والے کو روک کر کوئی اس کا چلان بنانے کی ہمت کرے یا کوئی اہلکار صرف ٹریفک میں روانی کی کوشش کرے. انتہائی کم عمر نوجوان کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بھی کوئی روکنے کی کوشش نہیں کرتا اور سیٹ بیلٹ باندھنے والا اکثر اوقات اس وجہ سے بیلٹ اتار دیتا ہے کہ لوگ اس کی طرف طنزیہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں پاگل ہے.
ٹریفک پولیس جس کا بنیادی کام ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے اور خلافت ورزی کی صورت میں بطور سزا جرمانہ کرنا ہے صرف چند گنے چنے لوگوں کو جرمانہ کرنے میں مصروف ہے. آپ شہر کے کسی بھی یوٹرن پر آسانی سے گاڑی نہیں موڑ سکتے کیونکہ کہ وہاں کھڑے رکشہ والوں سے اگر کچھ کہیں تو دھڑلے سے اپنے چلان کی رسید دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہم نے قانونی طور پر سڑک بند کی ہے.
شاید ہی ٹریفک پولیس کے کسی افسر نے یہ زخمت کی ہو کہ کوئی ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس سے بے ہنگم ٹریفک پر قابو پایا جا سکے. صاحب بہادر کا کام ہے صرف ڈرائیونگ لائسنس کا مضحکہ خیز امتحان لینا جس سے کسی صورت بھی ڈرائیور کی ڈرائیونگ کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکے.
جب پولیس اپنی ذمہ داری صرف چلان تک رکھے گی تو عوام بھی چلان سے آگے کا نہیں سوچے گی.