تین توجیہات جو ملحدین پر شدید گراں -- عظیم الرحمن عثمانی
دین کی جانب سے پیش کی جانے والی تین توجیہات ایسی ہیں جو ملحدین پر شدید گراں گزرتی ہیں. گفتگو کے دوران ان توجیہات کو سن کر ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں کس طرح بدل ڈالیں؟
.
١. پہلی توجیہہ کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے. گویا جب انہیں سمجھاتا جاتا ہے کہ اس دنیا میں موجود یا ہم پر وارد ہونے والی پریشانیاں، بیماریاں، اذیتیں، نعمتیں سب ہمارا امتحان لینے کے واسطے ہیں. یہ دیکھنے کیلئے ہیں کہ ہم نعمت یا مصیبت میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ تو ملحدین اس پر خوب کروٹیں بدلتے ہیں. چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی اور وجہ ڈھونڈھ کر لائیں.
.
٢. دوسری توجیہہ کہ اصل اجر آخرت کی ابدی حیات میں ملے گا اور ہم میں سے ہر ایک اپنے ہر عمل کے بارے میں جواب دہ ہوگا. ملحد ایک لمحے کو خدا کو ماننے کیلئے تیار ہوسکتا ہے مگر کسی ایسے خدا کے تصور کو ماننے سے اسے سخت الجھن ہے جو اس سے اسکے اعمال کا حساب لے. جو سزا و جزا کیلئے جنت و جہنم میں داخل کرے. جب آپ اس دنیا میں ہونے والی زیادتی، ظلم اور بھوک کا بدلہ و انصاف جنت و جہنم سے منسلک کرکے بتاتے ہیں تو ملحدین سخت بے چین ہوتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آپ یہ توجیہہ نہ دیں بلکہ کوئی ایسا جواب بتائیں جس سے اسی دنیا میں مکمل انصاف ہونا ثابت ہوجائے.
.
٣. تیسری توجیہہ کہ خدا ایک غیر مادی وجود ہے، جو زمان و مکان سے آزاد ہے اور جس پر اس مادی دنیا کے قوانین کا اطلاق ہرگز نہیں ہوتا. ملحدین مادی علوم بشمول سائنس کے حوالے سے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء سے لے کر وجود انسان تک کوئی بھی مادی وجود خود بخود بناء بنانے والے کے وجود نہیں پاسکتا. اب جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ بنانے والا خدا ہے تو اٹھلا کر پوچھتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا؟ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ خدا تو اپنی تعریف میں کہتے ہی اسے ہیں جسے کسی نے نہ بنایا ہو اور جو ان مادی قوانین کی بندش سے آزاد ہو، جن کے پابند تمام مادی مخلوقات ہیں.
.
ان تین پیش کردہ توجیہات کو قبول کرنا ملحدین پر سخت گراں گزرتا ہے. ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مذہبی طبقہ ان توجیہات سے برطرف ہوجائے. مگر خواہش کرتے ہوئے وہ دانستہ یا نادانستہ یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ان توجیہات کو بنانے والا کوئی ذاکر نائیک یا عظیم عثمانی نہیں ہے، جو ان کی خواہش کے احترام میں اسے بدل ڈالے. بلکہ یہی دین کا وہ مقدمہ ہے جو قران حکیم میں درج ہے. بلکہ یوں کہیئے کہ جو تمام الہامی صحائف میں بلاتفریق موجود ہے. یہی وہ دنیا، آخرت اور خدا کی ہستی کا تعارف ہے جو رب نے ہمیشہ اپنے انبیاء کے ذریعے ہم تک منتقل کیا ہے. اب یہ توجیہات آپ کی طبیعت ناگفتہ پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزریں؟ یا آپ کی سمجھ عالیشان سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں؟ ہم اسے نہیں بدلیں گے اور نہ ہی بدل سکتے ہیں. ہم نے کسی فلسفی کی مانند خدا کا تصور اپنے ذہن سے نہیں تراشا ہے بلکہ ہم نے تصور خدا اس خدا کے بھیجے ہوئے کلام ہی سے لیا ہے. دوسرے الفاظ میں اگر آپ اپنی خواہشات کے مطابق کسی ' ٹیلر میڈ' خدا کے تصور کے متمنی ہیں تو معذرت ہم آپ کی احقر درجے میں بھی مدد نہیں کرسکتے.