ارض پاک ۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری

غریب سے غریب ممالک کے افراد بھی غربت اور اپنے استحصال سے قطع نظر اپنے اپنے ملکوں کی نام نہاد آزادی کا دن ہزاروں سال سے اسی جوش و جزبے سے مناتے آئے ہیں

Aug 11, 2020 - 09:59
Mar 22, 2021 - 10:00
ارض پاک ۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری
چودہ اگست کی آمد آمد ہے۔ ارض پاک کی پرستش کے داعی اس دن کا استقبال روائتی جوش و جزبے سے کریں گے۔ 
غریب سے غریب ممالک کے افراد بھی غربت اور اپنے استحصال سے قطع نظر اپنے اپنے ملکوں کی نام نہاد آزادی کا دن ہزاروں سال سے اسی جوش و جزبے سے مناتے آئے ہیں کیونکہ ریاست نامی بت کی پرستش ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا خاصہ رہی ہے۔ 
پچھلی دو صدیوں میں البتہ انسانی ذہن نے ارتقا کی وہ منزل ضرور عبور کی ہے جہاں لاشعور میں چھپے ہر بت کے آگے سوالیہ نشان بننا شروع ہوتا ہے۔ 
تبھی بیسویں صدی  نے بڑی تعداد میں ایسے سکالرز پیدا کیے جو ریاست کے کردار اور ذمہ داریوں پر سوال اٹھاتے تھے۔ 
موجودہ صدی میں دنیا میں موجود چند مثالی فلاحی ریاستوں سمیت دیگر تمام ریاستوں کے جدید تعلیم یافتہ مکینوں کی اپنی اپنی ریاست سے مسلسل کم ہوتی جزباتی وابستگی انسانی شعور کی تکمیل کی طرف ایک اہم مائل سٹون تو ہے ہی یہ رجہان اسلام کے حقیقی نظرئیہ قومیت  کو تقویت بخشے گا جو درجنوں صدیوں سے  ریاستی حدود کے پنجروں میں قید رہ کر اپنی افادیت کھو چکا تھا۔ 
بیشتر ریاستوں میں ہزاروں سال سے گڑی آمریتوں پر وقت نے دباؤ ڈالا تو ریاستیں جمہوریت کا لباس پہن کر شخصی سے گروہی آمریتوں میں بدل گئیں۔ 
آج جمہوریہ کہلانے لیکن مخصوص طبقات کے مفادات کی نگہبانی کرنے والی کسی بھی جمہوریت کو دیکھ لیجیے یہاں قید لوگ باہر  کے نسبتا  آزاد  معاشروں کے افراد کی قسمت پر رشک کرتے نظر آئیں گے۔ 
ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک سمیت ساؤتھ کے تقریبا ہر ملک کے تقریبا سبھی افراد اپنے ممالک سے نارتھ امیگریٹ کرنے کے وسائل نہ بھی رکھتے ہوں اپنے قومی پنجروں سے آزادی پا کر وہاں جا کر آباد ہونے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ 
حب الوطنی کے نعروں پر آگہی اور شعور کا غالب آنا کلوزڈ معاشروں سے برین ڈرین کی ایک بنیادی وجہ ہے۔        
اپنے آبائی علاقے سے اس بنیاد پر محبت فطری فیمامینن ہے کہ وہاں نہ صرف آپ جیسے لوگ آپ ہی جیسے مسائل اور وسائل کے زیر اثر رہتے ہیں بلکہ وہ آپ ہی جیسی زبان بولنے کے ساتھ ساتھ آپ ہی جیسی روایات کے قیدی ہیں۔ 
لیکن موجودہ صدی میں قیدیوں کا اپنی جیل سے یہ بانڈ اتنا مظبوط ہرگز نہیں رہا کہ اس بنیاد پر استحصال کا حق حاصل کرنے والی ریاست اذہان کو قیدی رکھ سکے۔ 
حالیہ صدیوں میں یورپ  سمیت دنیا کے کچھ امیر خطوں کے عوام نے بھی ریاست کی روائیتی سوورینیٹی کے بڑے حصے کو ریجنل بلاکس کے ہاں سرینڈر کر کے اس یونیورسل سوسائٹی کے قیام کی طرف قدم بڑھایا ہے جس کا پہلا داعی اسلام اور دوسرا کمیونزم تھا۔               
میں نیشن سٹیٹ کے ویسٹ فیلین کنسیپٹ پر ہی یقین نہیں رکھتا اور میرے نزدیک سٹیٹ کا جو تصور  ہماری موجودہ نسلوں کے سامنے رکھا گیا ہے وہ بت پرستی کی جدید شکل ہے۔ 
اسلام انتظامی سہولت کے لیے مخصوص علاقے میں مخصوص نظام ہائے زندگی ترتیب دینے کی اجازت ضرور دیتا ہے۔ 
اپنے نظام اور افراد کی حفاظت اور ترقی کے لیے لڑنے کو جہاد اور کٹ مرنے کو شہادت گردانتا ہے لیکن اسلام کی نظر میں مسلم معاشرہ اور اس کی شہریت پوری دنیا پر محیط ہے یعنی پوری دنیا مسلمان کا وطن ہے۔ 
ایسا نہ ہوتا تو فتح مکہ کے بعد میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مکہ میں ہوتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آبائی وطن تھا۔ 
ریاستیں ہمارا عارضی ٹھکانہ ہیں جنکی شکل ہر صدی میں بدلتی رہتی ہے۔ 
اگر ریاست کوئی مقدس اینٹیٹی ہوتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی ریاست نہ صرف ہو بہو اسی شکل اور جیوگرافیکل باؤنڈریز کے ساتھ آج بھی موجود ہوتی جیسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے چھوڑی تھی بلکہ ہر مسلمان کی شہریت بھی اسی ریاست سے جڑی ہوا کرتی۔ 
لیکن اکثر مسلمان یہ بھلا چکے کہ اسلام میں قومیت کا تعلق علاقے سے نہیں اسلامی معاشرے اور اس الہامی نظریے سے ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ 
یہ تصور کہ ایک ریاست کی جیوگرافیکل باؤنڈریز کے اندر رہنے والے افراد ایک قوم کہلاتے ہیں ایک مغربی تصور ہے جو اس ضمن میں اسلامی نظریے سے اتنا ہی الگ ہے جتنا آسمان زمین سے الگ ہے۔ 
بہرحال ریاست نامی بت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ 
آہستگی سے ہی سہی دنیا خود بخود ریاست سے اس یونیورسل سوسائٹی کے قیام کی طرف بڑھ رہی ہے جو مسلم قومیت کی باہمی عصبیت اور اس کے ثمرات کے ظہور کے ساتھ ساتھ انسانیت کی تکمیل کے لیے بھی ضروری ہے۔ ۔ جاری ہے ۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow