ووٹ ایک جدید اصطلاح ہے۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور قرونِ اُولیٰ میں اس کے ہم معنی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہوئی، یہ جدید جمہوری دور کی اصطلاح ہے۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، عہدِ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ہمیں "بیعت" کی اصطلاح ملتی ہے، جو قرآن وحدیث میں بھی مذکور ہے۔ عہدِ رسالت میں مختلف مواقع پر بیعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہمیں ملتی ہیں:(1)قبولِ اسلام کے لیے "بیعت علی الاسلام "، (2)ہجرت کے موقع پر"بیعت علی الہجرۃ "،(3) جہاد کے موقع پر "بیعت علی الجہاد "،سلمہ بن اکوع سے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دو مرتبہ جہاد پر بیعت لی۔ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں :میں نے سلمہ سے کہا: آپ کس چیز پر بیعت کرتے تھے، انہوں نے کہا: موت پر،(صحیح البخاری:4169)"۔ (4)ایک بیعت مُحرَّمات ومُنکَرات کے ترک کرنے اورمامورات پر عمل کرنے کے بارے میں تھی، جو الممتحنہ :12 میں مذکور ہے اور اسے "بیعتِ مومنات"بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ مومنات کے ساتھ خاص نہیں ہے، عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے عورتوں والی بیعت کی، کیونکہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بعد بیعتِ امارت یا بیعتِ خلافت تھی،جوکئی صدیوں تک رائج رہی۔
خلفائے راشدین بیعتِ عام مسجد نبوی میں لیتے تھے، اُس کی حیثیت آج کے Vote of Confidence کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بیعت غیر مشروط تھی، انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوتے ہیں اور اُن کے علم کا منبع وحیِ ربّانی ہوتا ہے، لہٰذا اُن کے فرامین کو رد کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جبکہ اُولِی الامر یاحاکمِ وقت کی اطاعت قرآن وسنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "پس اگر تمہارا ان سے کسی چیز میں اختلاف ہوجائے، تو اُس (درپیش مسئلے )کو اللہ اور اس کے رسول (یعنی قرآن وسنت)کی طرف لوٹادو،(النسآء:59)"۔ اللہ تعالیٰ کی منشا قرآن سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی منشا حدیث سے معلوم ہوگی، یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی منشا ایک دوسرے کی ضدنہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے (درحقیقت ) اللہ (ہی) کی اطاعت کی، (النسآء: 80)"، ہمارے موجودہ دستوری نظام میں بھی حاکم کا حکم اگرآئین وقانون کے خلاف ہو، تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جس کا موقف آئین وقانون کے مطابق ہوگا، عدالت اُس کی توثیق کرے گی ۔
اس سے قطع نظر کہ مطلق جمہوریت کی شرعی حیثیت کیا ہے، جدید دور میں مختلف سطح کے قانون ساز اداروں کے ارکان، وزرائے اعظم اور صدور کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بعض مناصب کے انتخابات بالواسطہ اور بعض کے بلاواسطہ ہوتے ہیں اور ووٹر کے لیے کم از کم عمر کی شرط ہوتی ہے، تعلیم یا صداقت و دیانت کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ عام انتخابات میں ہر ادنیٰ واعلیٰ، عالم وجاہل، دیانت دار اور بد دیانت کی رائے کا وزن برابر ہوتا ہے ۔
مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں :
(1) : خصوصاً اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے، جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت وامانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے ۔
(2) : اسی طرح امتحانات میں طلبہ کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے، اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی، تو یہ جھوٹی شہادت ہے، جوحرام اور سخت گناہ ہے ۔
(3) : قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے، جس کو سفارش کہا جاتا ہے : گویاووٹ دینے والا یہ سفارش کرتاہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے،" اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"اور جو شخص اچھی سفارش کرے گا، تو( نیک کاموں میں)اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو بری سفارش کرے گا،تو( برے کاموں میں)اُس کا برابر کا حصہ ہوگا، (النسآء:85)۔
(4) : ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا کسی امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لیے وکیل بناتا ہے، اگر یہ وکالت قومی امور کی انجام دہی کے لیے ہے، توکسی نا اہل کو وکیل بنانا پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے "۔ خلاصہ یہ کہ ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں: "ایک شہادت، دوسری شفاعت، تیسری مشترکہ حقوق میں وکالت، پس نا اہل اور بے دین کو ووٹ دینا بیک وقت جھوٹی شہادت، بری سفارش اور ناجائز وکالت ہے، اس کے تباہ کن نتائج کا ذمے دار ووٹ دینے والا بھی ہوگا ۔(مفتی محمد شفیع دیوبندی معارف القرآن،ج:3،ص:70-71،بتصرف،چشتی)
ہماری رائے میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ووٹ کی یہ حیثیتیں محلِ نظر ہیں : جس قضایا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے، اُسے اُس کے ردّوقبول کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ جائز ووٹ کو الیکشن کا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر رد نہیں کرسکتا۔اسی طرح کسی کے حق میں سفارش کی جائے، تو جس کے پاس سفارش کی جارہی ہے، شریعت کی رُو سے اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے، جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے،لیکن پولنگ اسٹیشن کا پریذائیڈنگ آفیسر یا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر ازروئے قانون کسی جائز ووٹ کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔اسی طرح موکِّل اپنے وکیل کو معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جب کہ ووٹ دیتے ہی مؤثر ہوجاتا ہے، اس کے بعدووٹر نہ اپنے امیدوار کو معزول کرسکتا ہے اور نہ اپنے ووٹ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ منتخب امیدوار کی نا اہلی کو جانچنے اور نا اہلی کی بنیاد پرمعزول کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونل یااعلیٰ عدالتوں کے پاس ہوتاہے، ووٹر زکے پاس نہیں ہوتا ۔
پس ہماری رائے میں ووٹ قضا ہے، جس طرح ہمارے نظامِ عدالت میں ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ کرتا ہے، مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلہ کبھی ایک جج کرتا ہے، اسے Single Bench کہتے ہیں، کبھی دو یا تین جج کرتے ہیں، اسے Small Bench کہتے ہیں، کبھی اس سے زیادہ جج کرتے ہیں، اسے Larger Bench کہتے ہیں اور اگرکبھی عدالت کے تمام جج صاحبان کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں، تو اسے Full Court کہتے ہیں۔ دو ججوں کی رائے مختلف ہوجائے تو ریفری جج مقرر کیا جاتا ہے، دو سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کی صورت میں اگر ان کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکے تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک حلقۂ انتخاب میں کل ووٹروں کی مثال ایک جیوری یا عدالت کی ہے، اگر ووٹ ازروئے قانون درست ہے، تو اُسے کوئی رد نہیں کرسکتا، اگر کرے گا توعدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ملکی قانون میں انتخاب کے موقع پر جو ووٹر انتخاب میں حصہ نہیں لیتے، وہ اپنے حقِ قضا سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو حصہ لیتے ہیں، اُن کی رائے قضا میں شامل ہوتی ہے اورفل کورٹ کی طرح اکثریت کا فیصلہ جس امیدوار کے حق میں آئے، وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ امیدوار کو کسی بھی درجے کے امتحان یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے،اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا کسی بھی سلیکشن بورڈ کی حیثیت بھی قضا کی ہے۔ پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینااس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے، سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، حرام ہے اور گناہ ہے "۔پس طالب علم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے۔اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے، تو اس کے بارے میں شدید وعید آئی ہے :
عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:اگرصاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے ) کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے، کسی( جاہل اور خائن) کو عامل بنایا تو اس نے اللہ ، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی، (السنن الکبریٰ للبیہقی:20364،چشتی)
آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: "جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا، اُس کو (گویا)بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا، (سنن ترمذی:1325)
بغیر چھری کے ذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہواور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتاہے،تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے، وہ بھی جہنم میں ہوگا، (سنن ابوداؤد:3573)
پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں، تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علمبردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگاکر گلاب کے پھولوں یا انگور کے خوشوں کی تمنّا کرنے کے مترادف ہے۔
(نوٹ : اس مضمون کو ہم نے شرح صحیح مسلم سعیدی ، تفسیر تبیان القرآن ، تفسیر ضیاء القرآن ، بنیادی ماخوذ تفہیم المسائل و مضمون مفتی منیب الرّحمٰن ، تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع دیوبندی ، نعمۃ الباری شرح بخاری سے تیار کیا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)