کائنات کس نے بنائی سائنسی تحقیق وثبوت.... از رضوان خالد چوہدری

بِگ بینگ کے نظریے کو تو قُرآن اس نظریے کے بننے سے پہلے بھی سپورٹ کرتا ہے البتہ بِگ بینگ نظریے کا یہ کلیم مضحکہ خیز ہے کہ بگ بینگ ایک حادثہ تھا۔

Mar 18, 2021 - 13:47
Mar 18, 2021 - 14:42
کائنات کس نے بنائی سائنسی تحقیق وثبوت.... از رضوان خالد چوہدری
میری زندگی کا بیس سال سے زیادہ عرصہ اس گمان میں گزرا کہ خدا کی موجودگی پر ایمان بس ایمان بالغیب ہی ہے اور نہ تو خدا کے ہونے کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی اُس کے نہ ہونے کا کوئی ثبوت ہے۔
سائنس کہتی ہے کے دُنیا ایک حادثے یعنی بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ 
دنیا گھومنے کے ساتھ ساتھ مظاہر فطرت دیکھ کر یہ احساس تو ہونے لگا کہ اتنا پیچیدہ اور مربوط نظام حادثے کے نتیجے میں قائم نہیں ہو سکتا اور ہو بھی جائے تو برقرار نہیں رہ سکتا۔ 
سورۂ انفال کی بیالیسویں آیت میں اللہ کہتا ہے ’’جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے‘‘
میں نے فیصلہ کیا کہ اللہ کے واقعی ہونے کا کوئی ثبوت ملے گا تو ہی مانوں گا بغیر دلیل روشن کے ماننے سے تو قُرآن خود منع کرتا ہے۔ 
ایک ہسٹورین کی نظر سے دیکھنے سے لگتا تھا کہ اکثر مذاہب میں عقائد اور عبادات کو مُختلف ادوار میں حالات کے تحت باربار تراشا اور سنوارا گیا ہے لیکن انسانی ذہن کی سیاق و سباق دیکھنے کی محدود طاقت ان مذاہب کو ہر دور کےآنے والے نئے ذہن کے لیے قابل عمل شکل میں نہیں تراش سکی۔
پھر قرآن بھی سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ میرا اپنے اردگرد موجود دہریے دوستوں سے مکالمہ بھی بڑھتا گیا۔ 
ہمارے مُباحثے لادینیت کے دلائل، منطق, سائنسی اور تاریخی بیانیے اورسائنس کے اس دعوے کو لے کر چلتے تھے کہ سب کچھ ایک دھماکے اورحادثے کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اسے سائنس کی زبان میں بِگ بینگ تھیوری کہتے ہیں۔
سائنسی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ لگ بھگ چودہ ارب سال پہلے ایک زوردار دھماکے سے یہ کائنات وجود میں آئی جس میں اتنے سیارے ہیں جن کا شمار گنتی میں ممکن نہیں۔ ابھی کچھ سال پہلے سائنس نے یہ بھی دریافت کیا کہ کائنات مزید پھیلتی جا رہی ہے۔ 
سائنس نے ابھی تک کی معلوم کائنات کی پیمائش بھی کر لی۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ دو سو بلین کہکشاؤں کے موجود ہونے کا ثبوت مل چکا ہے۔ 
ان دو سو بلین کہکشاؤں میں سے ایک ہماری کہکشاں ہے جس میں ایک ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ 
ہماری زمین اور ہمارے نظام کے ستارے سیارے رقبے کے لحاظ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار کھرب کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ سب سیارے ستارے اپنے محور کے گرد بھی گھوم رہے ہیں اور اپنے اپنے سورج کے گرد بھی۔
بِگ بینگ کے نظریے کو تو قُرآن اس نظریے کے بننے سے پہلے بھی سپورٹ کرتا ہے البتہ بِگ بینگ نظریے کا یہ کلیم مضحکہ خیز ہے کہ بگ بینگ ایک حادثہ تھا۔ 
اگر بِگ بینگ ایک حادثہ تھا تو کتنا پرفیکٹ حادثہ تھا کہ دیکھیے پہلے تو حادثے میں دھماکہ ہوا، 
کھربوں سورج بنے، ہر سورج کے ساتھ بہت سی زمینیں بنی پھر ھادثے ہی کی بنیاد پر ہماری بھی ایک زمین بنی اور حادثاتی طور پر ہی سورج کے گرد اور اپنے محور کے گرد گھومنے لگی 
اور گھومی بھی 23.5ڈگری جھکاؤ پر جو اگر آدھا ڈگری بھی کم یا زیادہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی۔ 
یہ اس بات کا تو ثبوت ہے کہ اس مربوط اور مُنظم ترین دھماکے کے پیچھے کوئی بڑی طاقت موجود تھی جس نے کُچھ خاص قوانین کے زیر اثر یہ بگ بینگ ترتیب دیا۔ 
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ کس مذہبی کتاب میں بتایا گیا خُدا تھا۔ لیکن پہلے کُچھ اور شواہد اکٹھے کر لیں پھر ایک ہی بار جائزہ لیں گے۔ 
یہ زمین اپنے محور کے گرد چارسوساٹھ میٹر پر سیکنڈ کی رفتار سے گھومتی ہے اور سورج کے گردایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہوئی تین سوساٹھ دنوں میں اپنا ایک چکر مُکمل کرتی ہے۔ 
اگر ان دونوں سپیڈز میں چند کلومیٹر فی گھنٹہ کا بھی فرق ہوتا تو زمین پر نہ کوئی درخت اُگ سکتا نہ کشش ثقل یعنی گریویٹی موجودہ تناسُب میں ہوتی۔ 
انسانی اور نباتاتی زندگی کو مُمکن بنانے کے لیے زمین کے گھومنے کی رفتار بالکُل یہی ہونی چاہیے تھی جو ہے۔ 
سورج کے گرد گھومتے ہوئے ہماری زمین ساڑھے تیئس ڈگری کے زاویے پر جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ 
اگر زمین کے جھکاؤ کا زاویہ آدھا ڈگری بھی کم یا زیادہ ہوتا تو زمین پر موسم نہ بدلتا یعنی زندگی نہ ہوتی۔ کیسا کمال دھماکہ تھا کہ عقل دنگ ہے۔ 
پھر سورج دوسو کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سےاپنی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ 
دو سو بلین کے قریب کہکشائیں ابھی تک معلوم شدہ ہیں یعنی کئی ہزار بلین سورج اپنے گرد گھومتے ستاروں سیاروں کو لے کر اپنی اپنی کہکشاؤں کے گرد گھوم رہے ہیں لیکن کبھی دو سیارے ستارے آپس میں نہیں ٹکرائے
اس کا ذکر اللہ نے چودہ سو سال پہلے سورہ انبیا کی تیتیسویں آیت میں کر دیا تھا کہ چاند اور سورج اپنے لیے طے کردہ مداروں میں گھومتے ہیں 
اور اسی آیت میں دن اور رات کا ذکر کر کے اس نظام کے باہمی تعلق کا ذکر کیا جبکہ آج سے دو سو سال پہلے تک بائبل اور دُنیا کے سب لوگ سورج کے ساکت ہونے کو یونیورسل ٹرُتھ مانتی تھی۔ ۔
جتنی کائنات ابھی تک معلوم ہو سکی ہے اسکا باہمی پھیلاؤ 914 روشنی کے سال(لائیٹ ایر) بنتا ہے۔ 
روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے ایک سال میں جتنا فاصلہ روشنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے طے کرے اسے ایک لائیٹ ایر کہتے ہیں۔ 
914 روشنی کے سال تک توصرف معلوم کائنات ہے۔ 
سائنس اب یہ کہتی ہے کہ کائنات مسلسل بڑھ رہی ہے اور سائنس اب یہ بھی بتا رہی ہے کہ کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ 
قرآن نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ ہم کائنات کو مسلسل پھیلا رہے ہیں۔
زمین کا سورج سے فاصلہ اُتنا ہی ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ فاصلہ تھوڑا سا کم ہوتا تو سب سمندر بھاپ بن جاتےتھوڑا زیادہ ہوتا تو زمین پر مائع پانی کی جگہ سخت برف ہوتی۔ 
زمین پر پانی اور خشکی کا تناسُب بالکل اُتنا ہے جو بارش اور برف باری کے نظام کے لیے ضروری ہے اگر اکہتر فیصد ذمین پانی سے نہ ڈھکی ہوتی تو سورج کی تپش سے چلنے والا واٹر سائکل ڈسٹرب ہو جاتا جو زندگی کے لیے بُنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ 
اب میں آپ کو ایک ثبوت دیتا ہوں کہ قُرآن اُسی کا بھیجا ہوا کلام ہے جس نے زمین پر خُشکی اور پانی کا یہ تناسُب رکھا۔ 
قُرآن میں سمندر کا لفظ تینتیس بار جبکہ خُشکی کا ذکر بارہ بار آیا۔ 
یہ دونوں مل کر پینتالیس بنتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگرپینتالیس کے ٹوٹل میں سے سمندر کے تینتیس کا پرسنٹیج نکالیں تو یہ زمین پر پانی اور خُشکی کا موجُودہ تناسُب کے برابر بنتا ہے۔ 
سائنس نے یہ تناسُب اب دریافت کیا لیکن قرآن یہ حقیقت چودہ سو سال پہلے بتا چُکا تھا۔ 
قُرآن میں لفظ یوم تین سو پینسٹھ دفع آیا اب سائنس یہ کہتی ہے کہ اتنے ہی دنوں میں یہ زمین سورج کے گرد ایک چکر مُکمل کرتی ہے۔ 
لفظ شھر یعنی مہینہ قُرآن میں بارہ بار آیا۔ کوئی انسان آج سے چودہ سو سال پہلے اس سب تناسُب کا خیال رکھ کر قُرآن کیسے لکھ سکتا تھا یقینی طور پر یہ زمین بنانے والے کا ہی کلام ہے۔
جو کھربوں ٹن پانی سمندروں سے بھاپ بن کر روزانہ اڑتا ہے تو اوپر جا کر اُس میں وہ عناصر بادلوں میں بجلیاں کڑکنے سے شامل ہوتے ہیں جو زمین پر نباتات کی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ 
پھر بادلوں سے اتنا پانی اُتارا جاتا ہے کہ لوگوں کی ضرورت پوری ہونے کے بعد باقی زمین میں جذب ہو کر دو فیصد زیر زمین صاف پانی کا تناسُب برقرار رہ سکے جو زمین پر زندگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ 
قرآن اسی حقیقت کو اللہ کی نشانی قرار دیتا ہے۔ 
جتنا پانی سمندروں سے صاف ہونے کے لیے اوپر جاتا ہے اگر وہ سارا بارش کے ذریعے خُشکی پر آ جائے تو سیلاب آ جائیں لہذا وہ برف باری کی صورت میں پہاڑوں پر اُتارا جاتا ہے جہاں وہ گلشیرز کی صورت میں محفوظ رہتا ہے اور اُتنا ہی پگھلتا ہے جس سے ہمارے دریا چلیں اور وہ علاقے سیراب ہوں جہاں بارش نہیں آتی۔ 
اگر اوزون کی تہیں سورج اور زمین کے درمیان نہ رکھی گئی ہوتی تو سارے گلیشیر پگھل جاتے اور سمندروں کا پانی کھولتی ہوئی جہنم بن جاتا۔ 
یہ کیسا بگ بینگ یا حادثہ تھا جس کے نتیجے میں جو بھی ہوا اُس کا ہر ہر نُکتہ زندگی کی حفاظت میں لگا ہے اور جو سب اتنی سائنسی ترقّی کے بعد اب پتہ چلا اُس کا پتہ چودہ سو سال پہلے کی ایک کتاب میں کیسے ملتا ہے جو ایک ایسے انسان پر اُتری جو ایک لفظ لکھنا یا پڑھنا نہ جانتا تھا۔ 
کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اس دھماکے کے پیچھے جو خالق تھا وہی قُرآن کا بھیجنے والا بھی ہے۔ 
یعنی قُرآن اللہ کا ثبوت ہے اور اللہ قُرآن کی سچائی کا۔ 
سورہ حٰم کی آیت ترپن میں اللہ کہتا ہے ُُ ُ اور عنقریب ہم اُنہیں اپنی نشانیاں اسی دُنیا میں دکھائیں گے اور اُنکے نفس میں یہاں تک کہ انپرواضع ہو جائے کہ وہی حق ہے۔‘‘ 
اس آیت میں ہمارے نفس میں بھی اللہ کی نشانیوں کا ذکر ہے جس پر اگلی نشست میں بات ہوگی لیکن کائنات کے نظام کے بارے قرآن میں ایسی سیکڑروں آیات ہیں جو اُن قوانین کی نشاندہی کرتی ہیں جنہیں سائنس نے اب جانا ہے۔
سورۂ المُلک کی تیسری آیت میں زمین سے اوپر سات تہوں کا ذکر ہے جو سائنس اب نہ صرف مانتی ہے بلکہ اُن لیرز کو انسانی زندگی کے لازمی خیال کرتی ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow