آپکا خُدا کون ہے؟ تحریر محمد رضوان خالد چوھدری

انسانوں نے یہ تو ہزاروں سال پہلے طے کر لیا تھا کہ اگر انکا کوئی خالق ہے تو اسے بہت طاقتور ہونا چاہیے۔ کبھی انہیں سانپ, ہاتھی طاقتور لگے, کبھی چاند, سورج اور کبھی بادشاہ.

Mar 18, 2021 - 14:13
Mar 21, 2021 - 15:28
آپکا خُدا کون ہے؟ تحریر محمد رضوان خالد چوھدری
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی مذھب پر یقین نہ رکھتا ہو, کسی کا خود کو لادین قرار دینا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی مذھب کا ماننے والا ضرور ہو گا۔ پہلے یہ جاننا ہو گا کہ دین یا مذھب ہے کیا۔ 
دین کسی کو حتمی طاقت مان کر اسکی منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنے کا نام ہے۔ 
انسانوں نے یہ تو ہزاروں سال پہلے طے کر لیا تھا کہ اگر انکا کوئی خالق ہے تو اسے بہت طاقتور ہونا چاہیے۔ کبھی انہیں سانپ, ہاتھی طاقتور لگے, کبھی چاند, سورج اور کبھی بادشاہ. لہذا مختلف ادوار میں طاقتور سمجھی جانے والی الگ الگ اینٹیٹیز کی پرستش کی گئی۔ یعنی مذھب اسی کی مرضی و منشا کو اپنا لینے کا نام ہے جسے لاشعور عظیم سمجھے۔
پھر زمانہ بدلنے لگا اور چاند, سورج ہاتھی سانپ وغیرہ کی طاقت کی قلعی کھلتی گئی۔ بادشاہوں کا مفہوم اور نوعیت بھی بدل گئی, لیکن طاقتور سے مرعوبیت انسان کے لاشعور میں نہ صرف راسخ رہی بلکہ طاقتور کی منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی روش مضبوط تر ہوتی گئی۔ انسانوں کے خالق کو انسانوں کی اس نفسیات کا علم کیوں نہ ہوتا تبھی اس نے نبیوں کے ذریعے بھیجے گئے اپنے ہر پیغام میں سب سے پہلے اپنی لا محدود طاقت اور بے مثل اختیار کے دلائل سے کلام شروع کیا۔ 
جن افراد نے عقل سے کام لیا وہ ان دلائل کو جانچنے اور اپنی فطرت سے قریب پا کر اپنے خالق کو ہی ہر طاقتور سے بڑا ماننے لگے، جو دلائل اور شواھد کی جگہ دیگر معاملات باخصوص بظاہر آنکھوں دیکھی پر یقین رکھتے تھے وہ طاقت کے پیمانے پر نت نئے خدا تراشتے رہے۔ 
گویا مذھب الہامی ہو یا انسان کا اپنا پیدا کردہ ہر مذھب میں ایک ایسا طاقتور ضرور ہوتا یے جسکی مانی جاتی ہے۔ 
بعض افراد اپنی طاقتور خواہشات اور ضروریات کے سامنے اتنے بے بس ہو جاتے ہیں کہ انکی خواہش انکے اعمال کا تعین کرنے لگتی ہے۔ یعنی انکی خواہش انکا مذھب یہی انکا خدا بن جاتی ہے. پھر آپ انکے مذھب کو خواہ دہریت کہیے یا کوئی اور نام دیجیے وہ بہرحال لادین ہرگز نہیں کہلا سکتے۔ 
ایک اور قابلِ ذکر نکتہ ہے یہ ہے کہ عقل کے بھرپُور استعمال کے بعد خالق کو احدّ مان لینے والوں کو دیگر مذاھب بشمول دہریت کے ماننے والوں کی نسبت ایک آسانی تو ضرور ہوتی ہے وہ یہ کہ انہیں صرف ایک ہی طاقتور کی ماننی پڑتی ہے لیکن دیگر افراد کو ہر طاقتور کو کسی نہ کسی درجے میں خُدا مان کر بہت سے طاقتوروں کی ماننی پڑتی ہے جس میں خواہش کہلانے والا خُدا بھی شامل ہے۔ یعنی ایک اللہ کو ماننے والا جہاں ہر طاقتور کے اثر سے آزاد ہو جاتا ہے وہیں اپنی خواہش کی غلامی سے بھی نکل جاتا ہے۔ 
سچ پُوچھیے تو خواہش میری بھی یہی ہے کہ خُدا اپنے بچھائے شواھد میں مجھے نظر نہ آئے اور میں اپنی خواہش کو مذھب بناؤں یعنی دہریہ ہو جاؤں لیکن کیا کیجیے مجھے وہ نظر آتا ہے اور پھر جبر بھی نہیں کرتا کہ مجھے مانو ورنہ آزادی, زندگی اور سہولیات چھین لُوں گا, پھر ایسی طاقت سے بے اختیارانہ محبت سےکوئی کیسے باز رہے۔ 
یعنی اللہ سے محبت مغوی لڑکی کی اہنے اغواکار سے محبت کی طرح کی نفسیاتی بیماری یعنی سٹاک ہوم سینڈروم نہیں ہو سکتی۔ 
ممکن ہے دوست اعتراض کریں کہ اللہ آگ اور عذاب وغیرہ سے ڈراتا یا جنت کی نعمتوں وغیرہ کا لالچ بھی تو دیتا ہے پھر یہ محبت بھی تو محبت کم مجبوری زیادہ ہوئی۔ 
جائز سوال ہے لیکن اگر تو اللہ کے اپنے بندوں سے مطالبات رزق حلال کمانے، ہمسایوں، رشتے داروں،کمزوروں، یتیموں اور مسکینوں سمیت معاشرے حتی کہ جانوروں اور ماحول تک کے حقوق پورے کرنے کی روح لیے ہوئے ہیں تو پھر تو وہ مجھے میرا ہی فائدہ یقینی بنانے پر انعام اور میرا ہی نقصان کرنے پر سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ 
کہنے کو تو بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے اکیلا معبود ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکثریت کا اللہ پر یقین کا زبانی اقرار رسوم و رواج جیسا ہے۔ جیسے جہیز پر کوئی یقین نہیں رکھتا لیکن ثقافتی رسم نبھانے کو لیتا دیتا ہے۔ اکثریت کا اللہ پر یقین بھی ایسا ہی ہے۔ 
یعنی کنوکشن کے ساتھ عملی یقین کا فقدان ہے۔ جب ایک خالق پر یقین یقین کا فقدان  ہو تو لوگ اپنی لاشعوری ضرورت پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی خدا ضرور تراشیں گے جسکا طاقتور ہونا انکی ایک اور لاشعوری ضرورت ہے۔ 
خود پر غور کیجیے آپکے اعمال اور افکار آپکی جانِب سے کسے خُدا  سمجھنے کا ثبُوت دیتے ہیں، آپکی خواہش کو یا کسی طاقتور ادارے، فرد، ریاست، مذھبی یا سیاسی شخصیت کو یا پھر رسُوم رواج کو؟ 
یہ تو طے ہے کہ اگر ہم اللہ کو اپنا مالک سمجھتے ہوتے تو چلتی پھرتی مزاحمت ہوتے،  ہر قسمی ظُلم اور ناانصافی کے خلاف نڈر مزاحمت۔۔۔۔ 

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow